سخت گرمی کا دن تھا. کنویں پر اس وقت ایک جوان اپنے گھوڑے کو پانی پلا رہا تھا

 *اصل خوشی*

سخت گرمی کا دن تھا. کنویں پر اس وقت ایک جوان اپنے گھوڑے کو پانی پلا رہا تھا


اس خوب صورت اور وجیہ نوجوان کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں موجود تھیں . اس نوجوان کا تعلق عرب کے سب سے بہادر اور محترم قبیلے سے تھا .
وہ پورے عرب میں مشہور تھا . شہرت کی وجہ شجاعت تھی . سب جانتے تھے ،وہ اتنا شجاع ہے کہ میدان جنگ میں زرہ نہیں پہنتا. اس کا سامنا کرنے والے کا پتہ پانی ہو جاتا تجا اور جتنا بڑا بھی سورما ہوتا ،چند لمحے ٹک نہیں پاتا تھا.
اچانک اس نوجوان کی نظر ایک طرف اٹھی ،تو دیکھا کہ ایک شخص تیزی سے اس کی طرف آ رہا تھا . وہ اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا . جب وہ قریب آیا ،تووہ بولا .
" اے حمزہ ......اے حمزہ ! تو یہاں گھوڑے کو پانی پلا رہا ہے اور تجھے پتا ہے کہ وہاں کیا ہوا ہے ؟''
'' کیا ہوا ہے وہاں ؟ '' حمزہ نے تیزی سے پوچھا .
'' عمر بن ہشام تیرے یتیم بھتیجے کو بر سرِ عام برا بھلا کہہ رہا ہے ؟''
'' کیا کہہ رہے ہو ؟''
'' میں سچ کہہ رہا ہوں ...... کیا اب بنو ہاشم اپنے یتیموں کی کفالت سے بری ہو گئے ہیں ؟ "
ِیہ سنتے ہی حمزہ کا چہرہ طیش سے لال بھبھوکا ہو گیا . ان کے ہاتھ میں اس وقت تیر کمان تھی، اسی طرح بھاگ اٹھے . ان کا رخ ابو جہل کے ٹھکانے کی طرف تھا .
ابو جہل کے پاس اس وقت کچھ لوگ موجود تھے اور وہ انھیں اپنے آج کے اس گھٹیا کارنامے کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بتا رہا تھا . وہ فخر سے بول رہا تھا کہ اچانک وہ خاموش ہو گیا . لوگوں نے چونک کر دیکھا ،اس کا رنگ اڑ چکا تھا اور وہ ایک طرف دیکھے جا رہا تھا . خوف سے اسکی آنکھیں پھٹے جا رہی تھیں . لوگ حیران رہ گئے کہ ابھی تو یہ کیسے بول رہا تھا اور اچانک اسے سانپ کیوں سونگھ گیا ہے . پھر کچھ سوچ کر انھوں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا ،تو سب کچھ سمجھ آ گیا .
حمزہ انتہائی طیش کے عالم میں اس کی طرف بڑھ رہے تھے . حالات بتا رہے تھے کہ آج ابو جہل کی خیر نہیں .
جب وہ قریب پہنچے ،تو اس سے پہلے ابو جہل کچھ بولتا ، حمزہ نے کمان کا زور دار وار کیا اور اس کا سر پھاڑ دیا. بھل بھل کر کے لہو بہنے لگا . ابو جہل اپنا بچائو بھی نہ کر سکا .
یہ دیکھ کر حمزہ وہاں سے خوشی خوشی اپنے بھتیجے کے پاس پہنچے اور کہا.
" پیارے بھتیجے! غم زدہ نہ ہو، میں نے تیرا بدلہ لے لیا ہے اور خوش ہو جائو . ''

یہ سن کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے غیور چچا کے وجیہ چہرے کی جانب دیکھ کر بہت پیار سے فرمایا . 
'' چچا جان ! کیا آپ نے اسلام قبول کر لیا ؟ مجھے تو تب خوشی ہوگی،جب آپ اسلام قبول کر لیں گے ......." 
یہ سننا تھا کہ امیر حمزہ دھاڑیں مار کر رو پڑے اور بے اختیار کلمہ پڑھ لیا .

Post a Comment

Previous Post Next Post