حضرت عمرؑ اور ایک شرابی کا واقعہ


 حضرت عمرؑ اور ایک شرابی کا واقعہ
 دوستو اہلِ شام میں ایک بڑا قوی شخص تھا۔ وہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ کافی دن نہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے اُس کا حال پوچھا۔ لوگوں نے کہا امیر المومنین اُس کا حال نہ پوچھیں، وہ تو شراب میں مست رہنے لگ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مُنشی
کو بلایا اور کہا کہ اُس کے نام ایک خط لکھو ۔ آپ نےخط میں لکھوایا؛

میں تمہارے لئے اُس اللہ کی حمد پیش کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ گناہوں کو معاف کرنے والا ، توبہ کو قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا اور بڑی قدرت والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور ہمیں اس کی
طرف لوٹ کر جانا ہے۔

پھر حاضرین مجلس سے کہا کہ اپنے بھائی کے لئے سب مل کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو پھیر دے اور اس کی توبہ کو قبول فرمائے۔ سب نے مل کر دعا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ خط قاصد کو دیا اور کہا یہ خط اسے اس وقت دینا جب وہ نشے میں نہ ہو اور اس کے سوا کسی کو نہ دینا۔ جب اس کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ خط پہنچا تو اس نے پڑھا اور بار بار ان کلمات کو پڑھتا رہا اور غور کرتا رہا کہ اس میں مجھے سزا سے بھی ڈرایا گیا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی یاد دلایا گیا ہے ۔ وہ خط پڑھ کر رونے لگا اور شراب نوشی سے توبہ کر
لی اور ایسی توبہ کی کہ پھر کبھی شراب کے پاس نہ گیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس کی توبہ کی خبر ملی تو لوگوں سے فرمایا ۔ کہ ایسے معاملات میں تم لوگوں کو ایسے ہی کرنا چاہیئے کہ جب کوئی بھائی کسی لغزش میں مبتلا ہو جائے تو اس کودرستی پر لانے کی فکر کرو اور اس کو اللہ کی رحمت کا بھروسہ دلاؤ اور اللہ سے اس کے لئے دعا کرو ، تاکہ وہ توبہ کر لے، اور تم اس کے مقابلے پر شیطان کے مددگار نہ بنو ۔ یعنی اس کو برا بھلا کہہ کر یا غصہ دلا کر دین سے دور کر دو گے تو یہ شیطان کی مدد ہو گی اور شیطان کی جیت ہوگی  .

Post a Comment

Previous Post Next Post